Pages

Tuesday, August 15, 2006

Allao Urdu Novel By M.Mubin Part10

٭
دسواں با
ب
رات بڑی بھیانک تھی۔ سارےگاو
¿ں کو ایک پرہول سناٹےنیاپنی لپیٹ میں لےرکھاتھا۔ لیکن ایسا محسوس ہورہاتھا گاو
¿ں کےہر گھر سےایک شور اٹھ رہا ہے۔ سارےگاو
¿ں پر وحشت طاری تھی۔ ایسا محسوس ہورہاتھا کہ ماحول میں بہت کچھ کھول رہا ہی۔ ایک لاوےکی طرح.... ایک آتش فشاں کی طرح.... پتہ نہیں کب یہ پھٹ پڑےاور پھٹ کر باہر آجائےاو راپنےساتھ، اپنےراستےمیں آنےوالی ہر شئےکو جلا کر راکھ کردی۔ اس کی تپش ہر کوئی محسوس کررہا تھا۔ اسےنیند نہیں آرہی تھی ۔ آج دن بھر ٹی وی پر جو مناظر دکھائےگئےتھےاسےلگا ذہنوں میں زہر انڈیلا جارہا ہی۔الاو
¿ کی لکڑیوں میں تیل ڈالاجارہاہی۔ اور اب الاو
¿ پوری طرح تیار ہی۔بس اسےآگ بتانےکی دیر ہی۔ اور ایسی آگ بھڑےگی شاید بھی بجھ سکے۔اسےایسا محسوس ہورہا تھا۔ یہ گاو
¿ں کیا ....پورا گجرات....پورا بھارت ....اس آگ سےنہیں بچ سکتا۔ وہ اپنےآپ کو بھی اس ماحول میں محفوظ ہے۔ وہ ایک غیر وابستہ شخص ہی۔ دونوں فرقوں سےاس کا کوئی تعلق نہیں ہی۔ اس لیےدونوں فرقوں کےلیےبےضرر ہے۔کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھےگا۔ اس کا کوئی دشمن نہیں ہی۔ لیکن ایک دشمن ہی۔ مہندر بھائی پٹیل ۔اوریہ ایسا دشمن ہےجو کچھ بھی کرسکتا ہی۔ اسے ٠٠١ آدمیوں سےجتنا خطرہ نہیں ہوسکتا تھا ۔مہندر سےاسےخطرہ محسوس ہورہا تھا۔ و حالات کا فائدہ اٹھاکر اس سےاپنی دشمنی کا حساب چکا سکتا ہی۔ اس لیےاسےاپنی حفاظت کا انتظام کرنا چاہیی۔ اگر مہندر اس پر حملہ کرےتو اسےپورا یقین تھا وہ پانچ مہندروں سےاکیلا مقابلہ کرسکتا ہی۔ لیکن اسےڈر تھا ....مہندر اکیلا اس پر حملہ نہیں کرےگا۔ و اپنےگرگوں کےساتھ اس پر حملہ کرےگا۔ ایسی صورت میں خود کو بچانا اس کےلیےمشکل ہوجائےگا۔ مہندر جن جن تنظیموں سےوابستہ تھا وہ تمام تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی تھی اور انھوں نےاس قتل عام کےخلاف ”بھارت بند“ کا نعرہ لگایا تھا۔ بی جےپی،آ رایس ایس، وشوہندو پریشد، بجرنگ دل، شیوسینا سبھی اس بند میں شامل تھیں۔ اور یہ طےتھا بند کامیاب ہونےوالا ہی۔ آج بھی دن بھر سارا کاروبار بند ہی رہا۔ کل تو مکمل طور پر بند رہےگا۔ اس بند کی سیاست سےکیا حاصل ہونےوالا ہی۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔اس نےاپنےبچپن میں پنجاب میں اس طرح کا بند کئی بار دیکھےتھی۔ جب بھی کوئی آدمی دہشت گردوں کےہاتھوں مارا جاتا اس کےخلاف اسی طرح کا بند پکارےجاتےتھی۔ بند ناکام بھی ہوتےتھےاورکامیاب بھی ۔لیکن ان سےحاصل کچھ نہیں ہوپاتا تھا نہ مرنےوالوں کو نہ مارنےوالوں کو۔ اس لیےاسےبند کےنام سےنفرت تھی۔ بہت دنوں کےبعد وہ اسی طرح کا بند کل دیکھنےوالا تھا۔ وہ جو ایک غیر وابستہ شخص تھا اس بند سےاتنا خوفزدہ تھا۔ جولوگ اس واقعہ سےوابستہ تھےان کا کیا حال ہوگا؟اس خیال کےآتےہی اس نےسوچا گاو
¿ں کےحالات کا جائزہ لیا جائی۔ رات کےساڑھےدس بجےرہےتھی۔ اکیلےاس طرح گاو
¿ ں میں نکلنےسےاسےپہلی بار خوف محسوس ہورہا تھا۔ لیکن ہمت کرکےوہ نکل پڑا۔ گاو
¿ں پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ لیکن جگہ جگہ دس دس بیس بیس کو ٹولیوں میں گول بیٹھےتھی۔ صلاح و مشورہ کررہےتھی۔ ایک دوسرےسےسرگوشیاں کررہےتھی۔ اسےدیکھ کر وہ چونک پڑے۔ مشکوک نظروں سےاسےدیکھنےلگتےپھر جب انھیں محسوس ہوتا یہ ان کےلیےبےضرر آدمی ہےتو پھراپنےاپنےکاموں میں مشغول ہوجاتے۔منصوبوں اور سرگوشیوں میں ۔وہ جاوید سےمل کر اس کی حالت جاننا چاہتا تھا۔ مسلم محلوں کی صورت حال دیکھنا چاہتا تھا۔ ٥١،٠٢ ہزار کی آبادی میں مسلم آبادی مشکل سے٠٠٥ کےلگ بھگ ہوتی تقریباً ٠٥ ،٠٦ گھر وہ بھی گاو
¿ں ایک کونےمیں۔ ظاہر سی بات ہےکہ وہ خوف و دہشت سےسمٹےہوتےہوہوگی۔محلہ کےنکڑ پر لوگوں کا ایک ہجوم پہرہ دےرہا تھا۔ اسےآتا دیکھ سب چونک پڑےاور انھوں نےاسےگھیر لیا۔ ”ارےجمی ....تم اتنی رات گئےیہاں کیسےآئی؟“ جاوید اسےدیکھ کر بھیڑ کو چیرتا ہوا اس کےپاس آیا۔ ”آپ کی ،اورآپ کےمحلےکی صورت حال کا جائزہ لینےآیا ہوں ....جاوید بھائی “اس نےکہا۔ ”ابھی توسب ٹھیک ہی۔ لیکن جو حالات ہےاس سےایسا محسوس ہوتا ہےکل کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ “جاوید مایوسی سےبولا۔”کیا مطلب؟“وہ بولا ”آپ کےکہنےکا مطلب کیا ہی؟“”کل کیاہوسکتا ہےکچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا“”اگر خطرہ ہےتو آپ لوگ اس گاو
¿ں کو چھوڑدیں“”گاو
¿ں چھوڑ کر کہا جائیں ۔چاورں طر خطرہ منڈلارہا ہی۔ میں نےآس پاس کےتمام شہروں کی رپورٹیں جمع کرلی ہی۔ ہر جگہ سےایک ہی جواب ملتا ہےرہاں بھی وہی ماحول ہی۔ خطرہ ان پر بھی منڈلارہا ہےتو بھلا وہ ہمیں پناہ کیا دیں گی۔ ہم لوگ سینکڑوں سالوں سےاس گاو
¿ں میں آباد ہیں۔ آج تک اس گاو
¿ں کی یہ روایت رہی ہےکہ سارا ہندوستان سلگتا رہا لیکن یہاںکچھ نہیں ہوا۔ خدا کرےیہ روایت قائم رہے۔ہم اپنی طور پراپنی حفاظت کےلیےہمارےپاس لکڑیاں بھی نہیں ہے۔ کچھ دن قبل تلاشی کےنام پر وہ بھی پولیس ضبط کرکےلےجاچکی ہی۔ “ جاوید بولا ۔اس نےتمام لوگوں کی طرف دیکھا۔ ہر چہرےپر خوف لہرا رہا تھا۔ آنکھوں میں بےبسی چھائی ہوئی تھی۔ خطروں کےخدشات سےچہرہ تنا ہوا تھا۔”جاوید بھائی دن بھر ہم ایک ایک کےچہرےکو پڑھتےرہے۔کل تک جو ہمارےیار تھےآج ان کی آنکھیں بھی بدلی بدلی ہیں۔ ہر کوئی مہندر کےرنگ میں رنگ گیا اور مہندر کی بولی بولنےلگا ہی۔یہ آثار اچھےنہیں ہیں۔ “ایک آدمی بولا۔”گذشتہ دنوں اس گاو
¿ں میں وہ س کچھ ہوا جو گذشتہ سو سالوں میں نہیں ہوا تھا۔ ایسا لگ رہاہےجیسےیہ سب پہلےسےطےتھا۔منظم طور پر اس بات کی پوری تیاری کی جارہی تھی ۔ “دوسرا دمی بولا۔”تو ہم کیا کریں؟“”ہم حملہ نہیں کرسکتےتو بچاو
¿ بھی نہیں کرسکتے۔بچاو
¿ کےلیےہمایر پاس لاٹھیاں بھی تو نہیںہی۔“”اللہ بہت بڑا ہے۔وہ سب ٹھیک کردےگا۔“”ہمیں اللہ پر بھروسہ ہے۔لیکن اس کےبندو پر نہیں۔“وہ لوگ آپس میں باتیں کررہےتھےاور وہ تماشائی بنا چپ چاپ ایک دوسرےکےچہروں کو دیکھ رہا تھا۔”دیکھتےہونی کو کوئی ٹال سکتا۔اگر اوپر والےنےیہ ہمارےمقدر میں لکھ دیا ہےتو یہ ہوکر رہےاگ دل برداشتہ ہونےکی ضرورت نہیں ہےاس کا سامنا کرنےکےلیےخود کو تیار کرنا چاہیی۔ اور اپنےاندر اس طرح کےحالات کا مقابلہ کرنےکی ہمت جمع کرنی چاہیےورنا وقت کےآئےگا ہم کچھ بھی نہیں کرپائیں گی۔ صرف جھوٹےخوف کی وجہ سےہماری جانیں جائیں گی۔ “جاوید ہر کسی کودلاسہ دےرہا تھا۔تھوڑی دیر رک ک وہ وہاں سےواپس دوکان کی طرف چل دیا۔ اس بار لوٹا تو چوک پر اسےکئی لوگوں نےگھیر لیا۔ ”کیوں سردارجی کہاں سےآرہےہو؟“”مسلمانوں کےمحلےسےآرہےہونا؟“”کیا چل رہا وہاں؟“”سنا ہےوہاں پاکستان سےہتھیار آگئےہیں۔ پورےمحلےکا بچہ بچہ مہلک ہتھیاروں سےلیس ہے۔کل وہ اس گاو
¿ں پر حملہ کردیں گےاور اس گاو
¿ں کا ایک آدمی کو بھی نہیں چھوڑیں گی۔ “کسی نےکہاں۔”ان کی پاس پاکستان سےہتھیار کہاں سےآسکتےہیں۔ ان کےپاس تو اپنی حفاظت کےلیےلاٹھیاں بھی نہیں ہی۔ ہتھیار توآپ لوگوں کےپاس ہی۔ پاکستان کےہتھیار کا سوشہ چھوڑ کرآپ لوگوں کو اپنی حفاظت کےلیےمسلح کردیا گیا ہی۔ یہ تو وقت بتائےگا آپ ان ہتھیاورںسےاپنی حفاظت کریں گےیا حملہ کریں گے“و ہ بولا۔”سالا یہ بھی ان کا طرف دار لگتا ہی۔“کسی نےاس کی بات سن کرجل کر کہا۔”دیکھیےواں ایسا کچھ نہیں ہی۔ وہ لوگ تو خود ڈرےسہمےہوئےہیں۔ “اس نےکہا اور آگےبڑھ گیا۔ واپس آکر وہ بستر پر لیٹ گیا۔ لیکن نیند اس کی آنکھوں سےکوسوں دور تھی۔ ایسی حالت میں بھلا کسےنیند آسکتی تھی۔ اسےمحسوس ہورہا تھا جیسےاس کےچاروں طرف ایک الاو
¿ دہک رہا ہی۔ گاو
¿ں کےچاروں طرف ایک الاو
¿ں دہکا ہوا ہی۔جس کی آگ آگےبڑھ رہی ہی۔ گاو
¿ں کو ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لینےکےلیے۔


Contact:-
M.Mubin
http://adabnama.tripod.com
Adab Nama
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist.Thane ( Maharashtra,India)
Email:-adabnama@yahoo.com
mmubin123@yahoo.com
Mobile:-09372436628
Phone:-(02522)256477









 
Copyright (c) 2010 Allao Urdu Novel By M.Mubin Part 10 and Powered by Blogger.